خون اتر آیا دل کے چھالوں میں
بن رہے تھے محل خیالوں میں
جاگتے جاگتے چڑھا سورج
آنکھ دکھنے لگی اجالوں میں
پنچھیوں ہجرتوں کی رت آئی
برف جمنے لگی ہے بالوں میں
بھوک نے کھینچ دی ہیں دیواریں
ہم نوالوں میں ہم پیالوں میں
مرثیہ اس صدی کا لکھنا ہے
اور دو تین چار سالوں میں
بجنے والی ہے آخری گھنٹی
ہم ہیں الجھے ہوئے سوالوں میں
پانیوں کی سیاستیں اسلمؔ
مچھلیاں مطمئن ہیں جالوں میں
غزل
خون اتر آیا دل کے چھالوں میں
اسلم بدر