EN हिंदी
خون تھوکے گی زندگی کب تک | شیح شیری
KHun thukegi zindagi kab tak

غزل

خون تھوکے گی زندگی کب تک

جون ایلیا

;

خون تھوکے گی زندگی کب تک
یاد آئے گی اب تری کب تک

جانے والوں سے پوچھنا یہ صبا
رہے آباد دل گلی کب تک

ہو کبھی تو شراب وصل نصیب
پیے جاؤں میں خون ہی کب تک

دل نے جو عمر بھر کمائی ہے
وہ دکھن دل سے جائے گی کب تک

جس میں تھا سوز آرزو اس کا
شب غم وہ ہوا چلی کب تک

بنی آدم کی زندگی ہے عذاب
یہ خدا کو رلائے گی کب تک

حادثہ زندگی ہے آدم کی
ساتھ دے گی بھلا خوشی کب تک

ہے جہنم جو یاد اب اس کی
وہ بہشت وجود تھی کب تک

وہ صبا اس کے بن جو آئی تھی
وہ اسے پوچھتی رہی کب تک

میرؔ جونی ذرا بتائیں تو
خود میں ٹھہریں گے آپ ہی کب تک

حال صحن وجود ٹھہرے گا
تیرا ہنگام رخصتی کب تک