خوں میں تر صبر کی چادر کہاں لے جاؤ گے
زندگانی کو برہنہ سر کہاں لے جاؤ گے
آ گئے احکام نواب بولنا ممنوع ہے
تم سخنور لب گستر کہاں لے جاؤ گے
ٹوٹ جائیں گے ضوابط چیخ اٹھے گا ضمیر
دور نظروں سے ہر اک منظر کہاں لے جاؤ گے
ترک اولیٰ کی سزا یہ پتھروں کا شہر ہے
اب بھلا یہ کانچ کا پیکر کہاں لے جاؤ گے
شوق کے پر پیچ رستے اور عناصر سنگ میل
گر اٹھا بھی لو تو یہ پتھر کہاں لے جاؤ گے
آگہی کا رزق کب ملتا ہے اور کس سمت سے
کاسۂ ذوق نظر در در کہاں لے جاؤ گے
ہجر کی شب کا ہے یہ پچھلا پہر اٹھو شہابؔ
رو چکے شب بھر یہ چشم تر کہاں لے جاؤ گے

غزل
خوں میں تر صبر کی چادر کہاں لے جاؤ گے
عفت عباس