خوں گرفتہ ہو تو خنجر کا بدن دکھتا ہے
پنجۂ خیر میں ہی شر کا بدن دکھتا ہے
پیکر نیم شکستہ ہوں کرو تیشہ زنی
بارش گل سے یہ پتھر کا بدن دکھتا ہے
کون ہے تجھ سا جو بانٹے مری دن بھر کی تھکن
مضمحل رات ہے بستر کا بدن دکھتا ہے
مستقل شورش طوفاں سے رگیں ٹوٹتی ہیں
ضبط پیہم سے سمندر کا بدن دکھتا ہے
زخم خوردہ در و دیوار کی حالت ہے عجب
صرف آہٹ سے مرے گھر کا بدن دکھتا ہے
قیمت جاں کی توقع کف قاتل سے کہاں
خوں بہا یہ ہے کہ خنجر کا بدن دکھتا ہے
درد موجوں کی رفاقت کا بڑا ہے شاید
قرب ساحل سے شناور کا بدن دکھتا ہے
غزل
خوں گرفتہ ہو تو خنجر کا بدن دکھتا ہے
جمنا پرشاد راہیؔ