EN हिंदी
خون ناحق تھی فقط دنیائے آب و گل کی بات | شیح شیری
KHun-e-nahaq thi faqat duniya-e-ab-o-gil ki baat

غزل

خون ناحق تھی فقط دنیائے آب و گل کی بات

اعجاز وارثی

;

خون ناحق تھی فقط دنیائے آب و گل کی بات
یہ ہے محشر کیوں یہاں ہو دامن قاتل کی بات

آج کیوں اشکوں میں ہے عکس تبسم جلوہ گر
آ گئی کیا اپنی حد پر غم کے مستقبل کی بات

ہر نظر رنگینیٔ رخ تک پہنچ کر رہ گئی
پھول اب کس سے کہیں گلشن میں زخم دل کی بات

دیکھتے ہی رہ گئے قانون قدرت اہل ضبط
لے اڑی خاکستر پروانہ جب محفل کی بات

ناخدا ہم اور طوفاں سے کریں فکر فرار
ہم کبھی کرتے نہیں ساحل پہ بھی ساحل کی بات

ہو نہ جائے پھر شعور کارواں نذر فریب
چھیڑ دی ہے راہبر نے آج پھر منزل کی بات

کوئی اپنا ہے نہ کوئی ہمدم‌ و درد آشنا
اے خدا کس سے کہے اعجازؔ اپنے دل کی بات