خون ناحق تھی فقط دنیائے آب و گل کی بات
یہ ہے محشر کیوں یہاں ہو دامن قاتل کی بات
آج کیوں اشکوں میں ہے عکس تبسم جلوہ گر
آ گئی کیا اپنی حد پر غم کے مستقبل کی بات
ہر نظر رنگینیٔ رخ تک پہنچ کر رہ گئی
پھول اب کس سے کہیں گلشن میں زخم دل کی بات
دیکھتے ہی رہ گئے قانون قدرت اہل ضبط
لے اڑی خاکستر پروانہ جب محفل کی بات
ناخدا ہم اور طوفاں سے کریں فکر فرار
ہم کبھی کرتے نہیں ساحل پہ بھی ساحل کی بات
ہو نہ جائے پھر شعور کارواں نذر فریب
چھیڑ دی ہے راہبر نے آج پھر منزل کی بات
کوئی اپنا ہے نہ کوئی ہمدم و درد آشنا
اے خدا کس سے کہے اعجازؔ اپنے دل کی بات

غزل
خون ناحق تھی فقط دنیائے آب و گل کی بات
اعجاز وارثی