خون دل مجھ سے ترا رنگ حنا مانگے ہے
یا ہتھیلی پہ کوئی نقش وفا مانگے ہے
جو سدا دیتا رہا دار و رسن تحفے میں
ہم فقیروں سے وہی حرف دعا مانگے ہے
کیا ہوا ہے کہ رفاقت کا بھرم رکھنے کو
مجھ سے محبوب مرا زخم نیا مانگے ہے
شہر میں دھنستا ہے فتنے کی نئی دلدل میں
کیا قیامت ہے کہ میرا ہی پتہ مانگے ہے
کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے مزاج یاراں
جس کو دیکھو وہی اظہار وفا مانگے ہے
وہ تو وحشت میں کبھی سمجھے ہے مجھ کو قاتل
اور کبھی کوچۂ قاتل کا پتا مانگے ہے
عقل پر پردہ پڑا ہے کہ سخنور انجمؔ
دن کے ماحول میں بھی کالی ردا مانگے ہے
غزل
خون دل مجھ سے ترا رنگ حنا مانگے ہے
غیاث انجم