EN हिंदी
خون دل ہوتا رہا خون جگر ہوتا رہا | شیح شیری
KHun-e-dil hota raha KHun-e-jigar hota raha

غزل

خون دل ہوتا رہا خون جگر ہوتا رہا

شو رتن لال برق پونچھوی

;

خون دل ہوتا رہا خون جگر ہوتا رہا
یہ تماشا عشق میں شام و سحر ہوتا رہا

اس جہان آب و گل میں یوں بسر ہوتی رہی
مسکراتے بھی رہے دامن بھی تر ہوتا رہا

آرزؤں کو تڑپ کر نیند سی آتی گئی
قصۂ بیمار غم یوں مختصر ہوتا رہا

ان کی باتوں پر یقیں ہم عمر بھر کرتے رہے
انتظار شام وعدہ عمر بھر ہوتا رہا

تلخئ غم سے نہ پل بھر کے لئے فرصت ملی
عمر بھر گو چارۂ درد جگر ہوتا رہا