خون دل ہوتا رہا خون جگر ہوتا رہا
یہ تماشا عشق میں شام و سحر ہوتا رہا
اس جہان آب و گل میں یوں بسر ہوتی رہی
مسکراتے بھی رہے دامن بھی تر ہوتا رہا
آرزؤں کو تڑپ کر نیند سی آتی گئی
قصۂ بیمار غم یوں مختصر ہوتا رہا
ان کی باتوں پر یقیں ہم عمر بھر کرتے رہے
انتظار شام وعدہ عمر بھر ہوتا رہا
تلخئ غم سے نہ پل بھر کے لئے فرصت ملی
عمر بھر گو چارۂ درد جگر ہوتا رہا

غزل
خون دل ہوتا رہا خون جگر ہوتا رہا
شو رتن لال برق پونچھوی