خون آنسو بن گیا آنکھوں میں بھر جانے کے بعد
آپ آئے تو مگر طوفاں گزر جانے کے بعد
چاند کا دکھ بانٹنے نکلے ہیں اب اہل وفا
روشنی کا سارا شیرازہ بکھر جانے کے بعد
ہوش کیا آیا مسلسل جل رہا ہوں ہجر میں
اک سنہری رات کا نشہ اتر جانے کے بعد
زخم جو تم نے دیا وہ اس لیے رکھا ہرا
زندگی میں کیا بچے گا زخم بھر جانے کے بعد
شام ہوتے ہی چراغوں سے تمہاری گفتگو
ہم بہت مصروف ہو جاتے ہیں گھر جانے کے بعد
زندگی کے نام پر ہم عمر بھر جیتے رہے
زندگی کو ہم نے پایا بھی تو مر جانے کے بعد
غزل
خون آنسو بن گیا آنکھوں میں بھر جانے کے بعد
عزم شاکری