خوباں کے بیچ جاناں ممتاز ہے سراپا
انداز دلبری میں اعجاز ہے سراپا
پل پل مٹک کے دیکھے ڈگ ڈگ چلے لٹک کے
وہ شوخ چھل چھبیلا طناز ہے سراپا
ترچھی نگاہ کرنا کترا کے بات سننا
مجلس میں عاشقوں کی انداز ہے سراپا
نینوں میں اس کی جادو زلفاں میں اس کی پھاندا
دل کے شکار میں وہ شہباز ہے سراپا
غمزہ نگہ تغافل انکھیاں سیاہ و چنچل
یا رب نظر نہ لاگے انداز ہے سراپا
اس کے خرام اوپر طاؤس مست ہے گا
وہ میر دل ربابی طناز ہے سراپا
کشت امید کرتا سرسبز سبزۂ خط
انجام حسن اس کا آغاز ہے سراپا
وقت نظارہ فائزؔ دل دار کا یہی ہے
بستر نہیں بدن پر تن باز ہے سراپا
غزل
خوباں کے بیچ جاناں ممتاز ہے سراپا
فائز دہلوی