خشک روٹی توڑنی ہے سرد پانی چاہیے
کیا کسی گرجے کی کنڈی کھٹکھٹانی چاہیے
اے سماعت اس فضا میں آج بھی موجود ہے
ہاں نواے نغمۂ کن تجھ کو آنی چاہیے
کاہنا ہم سے روایت کا مکمل متن سن
بطن میں جلتی ہوئی شمع معانی چاہیے
سابقہ نقشے پہ تازہ سلطنت ایجاد ہو
آسماں نیلا بنانا گھاس دھانی چاہیے
گم شدہ سورج کو روتا ہے مرا یوم سپید
سرمئی شب کو چراغ آں جہانی چاہیے
حسن کے گارے میں آب عشق کی چھینٹیں ملا
چمپئی رنگت میں آتش سنسنانی چاہیے
جسم کی گوشہ نشینی اور کتنے روز ہے
بندۂ رب علی کو لا مکانی چاہیے
غزل
خشک روٹی توڑنی ہے سرد پانی چاہیے
احمد جہانگیر