خشک لمحات کے دریا میں بہا دے مجھ کو
مرگ احساس کی سولی پہ چڑھا دے مجھ کو
کون آ کر ترے انصاف کا مصداق بنے
بے گناہی پہ اگر تو نہ سزا دے مجھ کو
ایک پل میں یہ مرا رنگ اڑا دیتے ہیں
راس آتے نہیں خوش رنگ لبادے مجھ کو
یوں مجھے دیکھ کے چہرہ نہ چھپا ہاتھوں سے
میں ترا جسم برہنہ ہوں قبا دے مجھ کو
نہ ملی کوچہ و بازار میں ڈھونڈے سے کہیں
جو نظر نقش بہ دیوار بنا دے مجھ کو
تو ہیولیٰ جو نہیں ہے تو مرے سامنے آ
گنبد درد میں چھپ کر نہ صدا دے مجھ کو
غزل
خشک لمحات کے دریا میں بہا دے مجھ کو
زاہد فارانی