EN हिंदी
خشک دریا پڑا ہے خواہش کا | شیح شیری
KHushk dariya paDa hai KHwahish ka

غزل

خشک دریا پڑا ہے خواہش کا

اعجاز رحمانی

;

خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
خواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا

مستقل دل جلائے رکھتا ہے
ہے یہ موسم ہوا کی سازش کا

اس سے کہنے کو تو بہت کچھ ہے
وقت ملتا نہیں گزارش کا

کوئی اس سے تو کچھ نہیں کہتا
بو رہا ہے جو بیچ رنجش کا

پا بہ زنجیر چل رہے ہیں جو ہم
یہ بھی پہلو ہے اک نمائش کا

پھول کل تھے تو آج پتھر ہیں
یہ بھی انداز ہے ستائش کا

میں نے آنکھوں سے گفتگو کر لی
یہ ہنر ہے زباں کی بندش کا

کھل رہے ہیں گلاب زخموں کے
شکریہ آپ کی نوازش کا

جاری مشق سخن رہے اعجازؔ
کچھ صلہ تو ملے گا کاوش کا