خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
خواب دیکھا تھا ہم نے بارش کا
مستقل دل جلائے رکھتا ہے
ہے یہ موسم ہوا کی سازش کا
اس سے کہنے کو تو بہت کچھ ہے
وقت ملتا نہیں گزارش کا
کوئی اس سے تو کچھ نہیں کہتا
بو رہا ہے جو بیچ رنجش کا
پا بہ زنجیر چل رہے ہیں جو ہم
یہ بھی پہلو ہے اک نمائش کا
پھول کل تھے تو آج پتھر ہیں
یہ بھی انداز ہے ستائش کا
میں نے آنکھوں سے گفتگو کر لی
یہ ہنر ہے زباں کی بندش کا
کھل رہے ہیں گلاب زخموں کے
شکریہ آپ کی نوازش کا
جاری مشق سخن رہے اعجازؔ
کچھ صلہ تو ملے گا کاوش کا
غزل
خشک دریا پڑا ہے خواہش کا
اعجاز رحمانی