خشک دراروں والا دریا
زیر زمیں ہے بالا دریا
اس کو بڑا راس آیا دریا
میں اور دیس نکالا دریا
لہروں کی تحریر کنارے
ریت پہ لکھا قصہ دریا
آؤ یہ افواہ اڑائیں
ہم نے خواب میں دیکھا دریا
تہ میں عکساں نقش و مناظر
اوپر شہر کے بہتا دریا
آج بھی تیرے شہر ہیں پیاسے
اب بھی دور ہے خیمہ دریا
پل پر غوطہ خور پلے ہیں
سکہ بھاری ہلکا دریا
دور چراغ کی لو پر زندہ
سرما کا برفیلا دریا
اپنا سایہ ڈھونڈ رہا ہوں
شام ہے پل بھر تھم جا دریا
غزل
خشک دراروں والا دریا
مہدی جعفر