خشک دامن پہ برسنے نہیں دیتی مجھ کو
میری غیرت کبھی رونے نہیں دیتی مجھ کو
ایک خواہش ہے جو مدت سے گلا گھونٹے ہے
اک تمنا ہے جو مرنے نہیں دیتی مجھ کو
زندگی روز نیا درد سناتی ہے مگر
اپنے آنسو کبھی چھونے نہیں دیتی مجھ کو
دل تو احباب سے ملنے کو بہت چاہتا ہے
مفلسی گھر سے نکلنے نہیں دیتی مجھ کو
کچھ تو کانوں کو ستاتا ہے یہ تنہائی کا شور
کچھ مری خامشی سونے نہیں دیتی مجھ کو
فکر غربت کی مرے پیچھے پڑی ہو جیسے
چین سے لقمہ نگلنے نہیں دیتی مجھ کو
لے تو آتی ہے ضرورت مجھے بازاروں تک
اک انا ہے کہ جو بکنے نہیں دیتی مجھ کو
اتنا احسان تو کرتی ہے رضاؔ مجھ پہ حیات
ٹوٹ جاؤں تو بکھرنے نہیں دیتی مجھ کو
غزل
خشک دامن پہ برسنے نہیں دیتی مجھ کو
رضا مورانوی