خوشیاں تھیں بے وفا نہ رہیں زندگی کے ساتھ
غم با وفا تھے چلتے رہے آدمی کے ساتھ
ڈھلنے لگی جوانی جو آئی تھی چار دن
ٹھہرا بڑھاپا قبر تلک رہبری کے ساتھ
انداز زندگی کے بدل کر جیو سدا
اپنوں کی بے رخی کو سہو تم خوشی کے ساتھ
پوجا ہے میں نے روز و شب اس قدر اسے
اس کا ہی نام لکھتی رہی شاعری کے ساتھ
مجھ کو صباؔ ملی ہے مسرت بھی اس طرح
جیسے کہ اجنبی ہو کسی اجنبی کے ساتھ

غزل
خوشیاں تھیں بے وفا نہ رہیں زندگی کے ساتھ
ببلس ھورہ صبا