EN हिंदी
خوشی یاد آئی نہ غم یاد آئے | شیح شیری
KHushi yaad aai na gham yaad aae

غزل

خوشی یاد آئی نہ غم یاد آئے

سکندر علی وجد

;

خوشی یاد آئی نہ غم یاد آئے
محبت کے ناز و نعم یاد آئے

یہ کیوں دم بہ دم ہچکیاں آ رہی ہیں
کیا یاد تم نے کہ ہم یاد آئے

گلوں کی روش دیکھ کر گلستاں میں
شہیدوں کے نقش قدم یاد آئے

بروں کا بہت نام جپتی ہے دنیا
جو اچھے زیادہ تھے کم یاد آئے

دم نزع جونہی اجل مسکرائی
اچانک تمہارے کرم یاد آئے

مصیبت میں بھی بارہا وجدؔ مجھ کو
خدا جانتا ہے صنم یاد آئے