خوشی سے زیست کا ہر دکھ اٹھائے جاتے ہیں
ہم اہل دل کی روایت نبھائے جاتے ہیں
جنوں کی راہ میں بجھ بجھ کے اب بھی دیوانے
چراغ شعلۂ جاں سے جلائے جاتے ہیں
وہ فرد جرم ہی اے منصفو نہیں میری
مجھے یہ فیصلے جس پر سنائے جاتے ہیں
تعلقات میں دو طرفہ سرد مہری ہے
بس ایک وضع کو دونوں نبھائے جاتے ہیں
خوشی تو ڈھونڈے بھی اس دور میں نہیں ملتی
یہ کون لوگ ہیں جو مسکرائے جاتے ہیں
غزل
خوشی سے زیست کا ہر دکھ اٹھائے جاتے ہیں
مبین مرزا