خوشی سے پھولیں نہ اہل صحرا ابھی کہاں سے بہار آئی
ابھی تو پہنچا ہے آبلوں تک مرا مذاق برہنہ پائی
ترے مفکر سمجھ نہ پائے مزاج تہذیب مصطفائی
اصول جہد بقا کے بندے بلند ہے ذوق خود فنائی
خلیل مست مے جنوں تھا مگر میں تم سے یہ پوچھتا ہوں
رضائے حق کی چھری کے نیچے حیات آئی کی موت آئی
جو قلت سیم و زر کا غم ہے تو آؤ قیصر کے جانشینو
تمہاری خاطر ذرا جھکا دوں میں اپنا یہ کاسۂ گدائی
بجا ترا ناز بے نیازی مگر یہ انصاف بھی نہیں ہے
کہ تیری دنیا میں تیرے بندے بتوں کی دیتے پھریں دہائی
ندیم تاریخ فتح دانش بس اتنا لکھ کر تمام کر دے
کہ شاطران جہاں نے آخر خود اپنی چالوں سے مات کھائی
چلو کہ فاروقؔ مے کدے میں دماغ تازہ تو پہلے کر لیں
پھر آ کے اہل حرم کو دیں گے پیام تجدید پارسائی
غزل
خوشی سے پھولیں نہ اہل صحرا ابھی کہاں سے بہار آئی
فاروق بانسپاری