EN हिंदी
خوشی میں بھی نواسنج فغاں ہوں | شیح شیری
KHushi mein bhi nawa-sanj-e-fughan hun

غزل

خوشی میں بھی نواسنج فغاں ہوں

غلام مولیٰ قلق

;

خوشی میں بھی نواسنج فغاں ہوں
زمین و آسماں کا طرز داں ہوں

میں اپنی بے نشانی کا نشاں ہوں
ہجوم ماتم عمر رواں ہوں

ترے جاتے ہی میری زیست تہمت
نہیں ملتا پتا اپنا کہاں ہوں

غبار کاروان مور ہے زیست
یہ خط یار سے آشفتہ جاں ہوں

نہیں کچھ کام بخت و آسماں سے
میں ناکامی میں اپنی کامراں ہوں

نہیں دم مارنے کا دم اور اس پر
سراپا شمع ساں شکل زباں ہوں

خدا ہی گر نہ دے معشوق و مے کو
تو کیوں پھر محتسب سے سرگراں ہوں

وہاں کا رنگ پراں آسماں ہے
میں جس عالم کی تصویر گماں ہوں

کوئی آوارہ مل جائے تو پوچھوں
کدھر سے آیا ہوں جاتا کہاں ہوں

نکل جاتا ہے جی ہر آرزو پر
پے خون جوانی میں جواں ہوں

مرا غم عشرت رفتہ کا نغمہ
کہ مثل گرد بوئے کارواں ہوں

کواکب ہائے قسمت آسماں پر
نہ ہوں کیوں نکتہ چیں میں نکتہ داں ہوں

قلقؔ بے رونقی رونق ہے میری
بہار عمر ہستی کی خزاں ہوں