EN हिंदी
خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے | شیح شیری
KHushi kya ho jo meri baat wo but man jata hai

غزل

خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے

اکبر الہ آبادی

;

خوشی کیا ہو جو میری بات وہ بت مان جاتا ہے
مزا تو بے حد آتا ہے مگر ایمان جاتا ہے

بنوں کونسل میں اسپیکر تو رخصت قرأت مصری
کروں کیا ممبری جاتی ہے یا قرآن جاتا ہے

زوال جاہ و دولت میں بس اتنی بات اچھی ہے
کہ دنیا میں بخوبی آدمی پہچان جاتا ہے

نئی تہذیب میں دقت زیادہ تو نہیں ہوتی
مذاہب رہتے ہیں قایم فقط ایمان جاتا ہے

تھئیٹر رات کو اور دن کو یاروں کی یہ اسپیچیں
دہائی لاٹ صاحب کی مرا ایمان جاتا ہے

جہاں دل میں یہ آئی کچھ کہوں وہ چل دیا اٹھ کر
غضب ہے فتنہ ہے ظالم نظر پہچان جاتا ہے

چناں بروند صبر از دل کے قصے یاد آتے ہیں
تڑپ جاتا ہوں یہ سن کر کہ اب ایمان جاتا ہے