خوشی کہ چہرے پہ غم کا جلال ساتھ لئے
حیات ملتی ہے پر انتقال ساتھ لئے
بلندیوں پہ سبھی آ کے بھول جاتے ہیں
عروج آتا ہے لیکن زوال ساتھ لئے
وہ خون آنکھوں سے رونا عمل پرانا ہے
اب اشک بہتے ہیں آنکھوں کی کھال ساتھ لئے
کئی جمی ہوئی پرتیں ادھیڑ ڈالے گا
یہ مجھ میں کون ہے اترا کدال ساتھ لئے
خبر یہ گھول نہ دے مچھلیوں کو پانی میں
مچھیرے آئیں گے کل صبح جال ساتھ لئے
یہاں پہ چھوڑ دیا تو جواب ڈس لیں گے
میں لوٹ جاوں گا اپنا سوال ساتھ لئے
وہ پیٹ کے لئے کافی نہیں ہے اب فانیؔ
تو جا رہا ہے جو رزق حلال ساتھ لئے

غزل
خوشی کہ چہرے پہ غم کا جلال ساتھ لئے
فانی جودھپوری