خوشی اپنی نہ اب تو لوٹتی معلوم ہوتی ہے
انہیں مل کر انہیں کی ہو گئی معلوم ہوتی ہے
اسیران قفس رونے سے کیا صیاد چھوڑے گا
کسی کو کب کسی کی بیکسی معلوم ہوتی ہے
ہماری سادہ لوحی دیکھیے راہ محبت میں
کسی کی دشمنی بھی دوستی معلوم ہوتی ہے
اگر تم نے نہ پہچانا تو کیا اب رنج فرقت میں
مجھے اپنی بھی صورت اجنبی معلوم ہوتی ہے
چلے آؤ مری تنہائیوں پر خنداں ہیں انجم
برستی آگ سی یہ چاندنی معلوم ہوتی ہے
کہیں پر بیٹھ کر آرام کی لو سانس نا ممکن
مجھے اک قہر سی یہ زندگی معلوم ہوتی ہے
ہزاروں منزلیں طے ہو گئیں اس کے طفیل آفتؔ
مری رہبر مری دیوانگی معلوم ہوتی ہے

غزل
خوشی اپنی نہ اب تو لوٹتی معلوم ہوتی ہے
للن چودھری