EN हिंदी
خوشبو سا کوئی دن تو ستارا سی کوئی شام | شیح شیری
KHushbu sa koi din to sitara si koi sham

غزل

خوشبو سا کوئی دن تو ستارا سی کوئی شام

سلیم فگار

;

خوشبو سا کوئی دن تو ستارا سی کوئی شام
بھیجو تو کبھی نور کا دھارا سی کوئی شام

پوروں سے نکل کر یہ کہاں جاتی ہے جانے
آتی ہی نہیں ہاتھ میں پارا سی کوئی شام

یادوں کی ہواؤں میں بڑا زور تھا شاید
ہے بکھری پڑی پاؤں میں گارا سی کوئی شام

رہتی ہے مرے کمرے میں کوئی تیرہ اداسی
اے شعلہ بدن بھیج شرارہ سی کوئی شام

اس دن کے سمندر میں جو شل ہوتے ہیں بازو
افلاک سے آتی ہے کنارا سی کوئی شام

ہم روز ہی دفناتے ہیں بجھتا ہوا سورج
پھر ڈھونڈنے جاتے ہیں سہارا سی کوئی شام