خوشبو کو رنگتوں پہ ابھرتا ہوا بھی دیکھ
نقش زر بہار چمکتا ہوا بھی دیکھ
رکھ کے مدار شوق کسی آفتاب پر
تو سنگ انتظار پگھلتا ہوا بھی دیکھ
آنکھوں کے گرد جھانکتے حلقے نہ دیکھ تو
سیل خجستہ خو کو اترتا ہوا بھی دیکھ
بے فیض دشت درد میں آہستگی کے ساتھ
آہو سرشت لوگوں کو چلتا ہوا بھی دیکھ
رنگ حنا کو نقش قدم سے جدا بھی کر
صحرا میں رخش شوق کو گرتا ہوا بھی بھی دیکھ
محسوس کر چھلکتے ہوئے شوق کی جلن
یخ چاندنی میں جسم کو جلتا ہوا بھی دیکھ
ہر چیز دے کے جاتی ہے اپنی نشانیاں
ہر گل میں رنگ صبح جھلکتا ہوا بھی دیکھ
ناہیدؔ چیرہ دستئ یاراں عزیز رکھ
موقع کے ساتھ ان کو بدلتا ہوا بھی دیکھ
غزل
خوشبو کو رنگتوں پہ ابھرتا ہوا بھی دیکھ
کشور ناہید