خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
مانگا تھا جسے ہم نے دن رات دعاؤں میں
تم چھت پہ نہیں آئے میں گھر سے نہیں نکلا
یہ چاند بہت بھٹکا ساون کی گھٹاؤں میں
اس شہر میں اک لڑکی بالکل ہے غزل جیسی
بجلی سی گھٹاؤں میں خوشبو سی اداؤں میں
موسم کا اشارہ ہے خوش رہنے دو بچوں کو
معصوم محبت ہے پھولوں کی خطاؤں میں
ہم چاند ستاروں کی راہوں کے مسافر ہیں
ہم رات چمکتے ہیں تاریک خلاؤں میں
بھگوان ہی بھیجیں گے چاول سے بھری تھالی
مظلوم پرندوں کی معصوم سبھاؤں میں
دادا بڑے بھولے تھے سب سے یہی کہتے تھے
کچھ زہر بھی ہوتا ہے انگریزی دواؤں میں
غزل
خوشبو کی طرح آیا وہ تیز ہواؤں میں
بشیر بدر