خوشبو ہے شرارت ہے رنگین جوانی ہے
یادوں کے پرستاں میں شیشے کی کہانی ہے
ماضی کی حقیقت ہے اس دور میں افسانہ
سیتا بھی کہانی ہے مریم بھی کہانی ہے
دشمن سے خطر والو لمحوں پہ نظر رکھنا
ہر لمحۂ ہستی بھی تلوار کا پانی ہے
ہونٹوں کا مہک اٹھنا آنچل کا ڈھلک جانا
ان پاک گناہوں کی تاریخ پرانی ہے
اس شوخ کے متوالو رگ رگ سے لہو مانگو
پتھر پہ غم دل کی تصویر بنانی ہے
برسات میں بھیگا ہے دوشیزہ بدن اس کا
ناصح کو بھی بلوا لو اب آگ میں پانی ہے
تاریخ بدایوں میں معروف سخن ور ہیں
سیفیؔ کی نظر لیکن گرویدۂ فانیؔ ہے
غزل
خوشبو ہے شرارت ہے رنگین جوانی ہے
سیفی پریمی