EN हिंदी
خوشبو بدن کی خالی سمندر ہواؤں کے | شیح شیری
KHushbu badan ki Khaali samundar hawaon ke

غزل

خوشبو بدن کی خالی سمندر ہواؤں کے

مظفر ایرج

;

خوشبو بدن کی خالی سمندر ہواؤں کے
کیوں چھیڑتے ہیں ہم کو پیمبر صداؤں کے

دیکھی نہ جائے ہم سے پریشاں برہنگی
چنتے ہیں اپنے جسم میں پتھر رداؤں کے

پھر بوند بوند ٹپکی ہمارے بدن سے دھوپ
پھر عکس عکس بکھرے ہیں منظر فضاؤں کے

یہ اور بات اپنی ہی تہہ تک نہ جا سکے
اترے تھے چاند پر بھی شناور خلاؤں کے

تپتے رہے ہیں خامشی کا زہر عمر بھر
شاید وہ جانتے تھے مقدر دعاؤں کے

ایرجؔ صدائے رنگ مہکنے لگی ہوا
قوس قزح نے کھول دیے پر گھٹاؤں کے