خوش رنگ ہے گل سے گل رخسار تمہارا
ریحاں سے سوا خط ہے نمودار تمہارا
مطلوب ہو تم دل ہے طلب گار تمہارا
یہ آئنہ ہے تشنۂ دیدار تمہارا
یوسف کو کبھی مفت بھی لیتی نہ زلیخاؔ
نظارہ جو کرتی سر بازار تمہارا
دامن کا بھی بوسہ نہ لیا فرط ادب سے
اب تک نہیں یہ بندہ گنہ گار تمہارا
گرمی سے جو خورشید قیامت کی جلیں گے
یاد آئے گا یہ سایۂ دیوار تمہارا
عشاق کے سجدوں کا بھلا ذکر ہی کیا ہے
ہندو و مسلماں ہے پرستار تمہارا
طوطی کی طرح کیوں نہ سخن سنج ہو احقرؔ
ہے سامنے آئینۂ رخسار تمہارا
غزل
خوش رنگ ہے گل سے گل رخسار تمہارا
رادھے شیام رستوگی احقر