EN हिंदी
خوش رنگ ہے گل سے گل رخسار تمہارا | شیح شیری
KHush-rang hai gul se gul-e-ruKHsar tumhaara

غزل

خوش رنگ ہے گل سے گل رخسار تمہارا

رادھے شیام رستوگی احقر

;

خوش رنگ ہے گل سے گل رخسار تمہارا
ریحاں سے سوا خط ہے نمودار تمہارا

مطلوب ہو تم دل ہے طلب گار تمہارا
یہ آئنہ ہے تشنۂ دیدار تمہارا

یوسف کو کبھی مفت بھی لیتی نہ زلیخاؔ
نظارہ جو کرتی سر بازار تمہارا

دامن کا بھی بوسہ نہ لیا فرط ادب سے
اب تک نہیں یہ بندہ گنہ گار تمہارا

گرمی سے جو خورشید قیامت کی جلیں گے
یاد آئے گا یہ سایۂ دیوار تمہارا

عشاق کے سجدوں کا بھلا ذکر ہی کیا ہے
ہندو و مسلماں ہے پرستار تمہارا

طوطی کی طرح کیوں نہ سخن سنج ہو احقرؔ
ہے سامنے آئینۂ رخسار تمہارا