EN हिंदी
خوش رنگ آسمان اڑا لے گئی ہوا | شیح شیری
KHush-rang aasman uDa le gai hawa

غزل

خوش رنگ آسمان اڑا لے گئی ہوا

ناز قادری

;

خوش رنگ آسمان اڑا لے گئی ہوا
خوشبو کا سائبان اڑا لے گئی ہوا

کانٹے الجھ کے دامن ہستی سے رہ گئے
پھولوں کی داستان اڑا لے گئی ہوا

آنکھوں میں اب چمکتے در و بام ہیں کہاں
خوابوں کا وہ مکان اڑا لے گئی ہوا

دل کے تعلقات کی خوشبو کہیں نہیں
مربوط خاندان اڑا لے گئی ہوا

بے سمت زندگی مری بے سمت ہی رہی
منزل کا ہر نشان اڑا لے گئی ہوا

تھی جس کے دم سے جلوۂ تہذیب نو یہاں
کب کا وہ خاکدان اڑا لے گئی ہوا

قسمت سے آ گئے تھے ہم اہل ستم کے ہاتھ
وہ تیر وہ کمان اڑا لے گئی ہوا

طوفاں سے کھیلتی ہوئی کشتی گزر گئی
ہر چند بادبان اڑا لے گئی ہوا

ظاہر ہوا جو مطلع دل پر یقیں کا نور
پل بھر میں ہر گمان اڑا لے گئی ہوا

بدلا تھا جن سے نازؔ مرا لہجۂ غزل
وہ طرز وہ بیان اڑا لے گئی ہوا