خوش نما گرچہ مد کا ہالہ ہے
تیرے کانوں کا بالا بالا ہے
در مے خانہ کا گدا ہوں میں
بے پیالہ مرا پیالہ ہے
دل صد پارہ یہ بغل میں نہ ہو
درد دکھ کا مرے رسالہ ہے
اس نگہ اس مژہ کی کچھ مت پوچھ
ایک برچھی ہے ایک بھالا ہے
ہے دم و ہوش اپنا بے ہوشی
ہوش جب سے یہاں سنبھالا ہے
کیسے وعدہ خلاف سے ؔجوشش
حق تعالی نے کام ڈالا ہے
مجھ کو ہے انتظار و بیتابی
اس کو حیلہ ہے اور حوالہ ہے
غزل
خوش نما گرچہ مد کا ہالہ ہے
جوشش عظیم آبادی