EN हिंदी
خوش نظر ہے نہ خوش خیال ہے یہ | شیح شیری
KHush-nazar hai na KHush-KHayal hai ye

غزل

خوش نظر ہے نہ خوش خیال ہے یہ

حباب ترمذی

;

خوش نظر ہے نہ خوش خیال ہے یہ
آج کے دیدہ ور کا حال ہے یہ

تم مرے دل میں کیوں نہیں آتے
شہر رعنائی جمال ہے یہ

میرے چہرے پہ کچھ نہیں تحریر
صرف عنوان عرض حال ہے یہ

وجہ ناکامئ وفا کیا ہے
آپ سے آخری سوال ہے یہ

چاہتے بھی ہیں چاہتے بھی نہیں
دوستی کی نئی مثال ہے یہ

کیسے سلجھیں گے کاکل دوراں
کتنا الجھا ہوا سوال ہے یہ

کون جانے عروج کیا ہوگا
آدمی کا اگر زوال ہے یہ

ڈھونڈھتا ہے نئی نئی افتاد
دل ایذا طلب کا حال ہے یہ

اس زمانے میں پاک دامانی
امر ممکن نہیں محال ہے یہ

اب کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی
دل کی دنیا میں خشک سال ہے یہ