خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا
کاغذ کی ناؤ تھی جسے دریا عزیز تھا
اے تنگئی دیار تمنا بتا مجھے
وہ پانو کیا ہوئے جنہیں صحرا عزیز تھا
پوچھو نہ کچھ کہ شہر میں تم ہو نئے نئے
اک دن مجھے بھی سیر و تماشا عزیز تھا
بے آس انتظار و توقع بغیر شک
اب تم سے کیا کہیں ہمیں کیا کیا عزیز تھا
وعدہ خلافیوں پہ تھا شکوؤں کا انحصار
جھوٹا سہی مگر مجھے وعدہ عزیز تھا
اک رسم بے وفائی تھی وہ بھی ہوئی تمام
وہ یار بے وفا مجھے کتنا عزیز تھا
یادیں مجھے نہ جرم تعلق کی دیں سزا
میرا کوئی نہ میں ہی کسی کا عزیز تھا
غزل
خوش فہمیوں کو درد کا رشتہ عزیز تھا
نشتر خانقاہی