EN हिंदी
خوش فہمیٔ ہنر نے سنبھلنے نہیں دیا | شیح شیری
KHush-fahmi-e-hunar ne sambhalne nahin diya

غزل

خوش فہمیٔ ہنر نے سنبھلنے نہیں دیا

درویش بھارتی

;

خوش فہمیٔ ہنر نے سنبھلنے نہیں دیا
مجھ کو مری انا ہی نے پھلنے نہیں دیا

چاہا نئے سے ریتی رواجوں میں میں ڈھلوں
لیکن روایتوں نے ہی ڈھلنے نہیں دیا

ایک ایک شے بدلتی گئی میرے آس پاس
حالات نے مجھے ہی بدلنے نہیں دیا

چلنا تھا ساتھ ساتھ ہمیں عمر بھر مگر
ناپائیدار عمر نے چلنے نہیں دیا

دل مے کدے کی سمت چلا تھا مگر اسے
اس راستے پہ عقل نے چلنے نہیں دیا

انجام آرزو کا برا ہے بس اس لئے
دل میں کبھی چراغ یہ جلنے نہیں دیا

درویشؔ بے قرار رہا دل تمام عمر
موقع سکوں کا ایک بھی پل نے نہیں دیا