خورشید کی نگاہ سے شبنم کو آس کیا
تصویر روزگار سے دل ہے اداس کیا
شہرت کی گرد خواب کے طوفاں غموں کی دھول
ان کے سوا ہے اور زمانے کے پاس کیا
ٹوٹا نہ زور غم نہ زمانے کا سر جھکا
نکلے گی وصل یار سے دل کی بھڑاس کیا
ہم کو کتاب زیست کا ہر باب حفظ ہے
اک باب غم کا صرف پڑھیں اقتباس کیا
نکلے ہیں زہر کرب میں بجھ کر تمام لفظ
گھولیں سبوئے شعر میں غم کی مٹھاس کیا
جن کی نظر میں ہیچ ہے تاج ہنر نعیمؔ
ان کے حضور میں کیا مری التماس کیا
غزل
خورشید کی نگاہ سے شبنم کو آس کیا
حسن نعیم