خمار شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا
جو کام کرنا تھا مجھ کو وہ کام کر بیٹھا
قبائے زرد پہن کر وہ بزم میں آیا
گل حنا کو ہتھیلی میں تھام کر بیٹھا
چھپا گیا تھا محبت کا راز میں تو مگر
وہ بھول پن میں سخن دل کا عام کر بیٹھا
جو سو کے اٹھا تو رستہ اجاڑ لگتا تھا
پہنچنا تھا مجھے منزل پہ شام کر بیٹھا
تھکن سفر کی بدن شل سا کر گئی ہے منیرؔ
برا کیا جو سفر میں قیام کر بیٹھا
غزل
خمار شب میں اسے میں سلام کر بیٹھا
منیر نیازی