EN हिंदी
خلوص‌‌ و فکر کی یہ روشنی کہاں تک ہو | شیح شیری
KHulus-o-fikr ki ye raushni kahan tak ho

غزل

خلوص‌‌ و فکر کی یہ روشنی کہاں تک ہو

جاوید منظر

;

خلوص‌‌ و فکر کی یہ روشنی کہاں تک ہو
میں سوچتا ہوں تری چاندنی کہاں تک ہو

جدا رہو گی مگر کس لئے کدھر کب تک
مجھے پتہ تو چلے تم مری کہاں تک ہو

کہاں زمین کہاں آسماں کہاں ہم تم
یہی ہے فرق تو پھر دوستی کہاں تک ہو

لہو لہو بھی ہوا پیرہن نظر میں رہا
جو ٹھیس دل کو لگی وہ لگی کہاں تک ہو