کھلی تھی آنکھ سمندر کی موج خواب تھا وہ
کہیں پتہ نہ تھا اس کا کہ نقش آب تھا وہ
الٹ رہی تھیں ہوائیں ورق ورق اس کا
لکھی گئی تھی جو مٹی پہ وہ کتاب تھا وہ
غبار رنگ طلب چھٹ گیا تو کیا دیکھا
سلگتی ریت کے صحرا میں اک سراب تھا وہ
سب اس کی لاش کو گھیرے ہوئے کھڑے تھے خموش
تمام تشنہ سوالات کا جواب تھا وہ
وہ میرے سامنے خنجر بکف کھڑا تھا زیبؔ
میں دیکھتا رہا اس کو کہ بے نقاب تھا وہ
غزل
کھلی تھی آنکھ سمندر کی موج خواب تھا وہ
زیب غوری