کھلے ہیں دشت میں نفرت کے پھول آہستہ آہستہ
سروں تک آتی ہے قدموں کی دھول آہستہ آہستہ
ابھی کچھ دن لگیں گے موسموں کا بھید پانے میں
بدل جائیں گے یاروں کے اصول آہستہ آہستہ
زیاں کا کوئی رشتہ عمر بھر قائم نہیں رہتا
سو مٹ جاتا ہے ہر شوق فضول آہستہ آہستہ
مجھے جرم ہنر مندی کا قائل ہونے دو پہلے
میں ہر الزام کر لوں گا قبول آہستہ آہستہ
یہ دھرتی ایک دن بنجر زمیں بن جائے گی جاناں
گلابوں کی جگہ لیں گے ببول آہستہ آہستہ
غزل
کھلے ہیں دشت میں نفرت کے پھول آہستہ آہستہ
اسعد بدایونی