کھلا نہ مجھ سے طبیعت کا تھا بہت گہرا
ہزار اس سے رہا رابطہ بہت گہرا
بس اس قدر کہ یہ ہجرت کی عمر کٹ جائے
نہ مجھ غریب سے رکھ سلسلہ بہت گہرا
سب اپنے آئینے اس نے مجھی کو سونپ دیے
اسے شکست کا احساس تھا بہت گہرا
مجھے طلسم سمجھتا تھا وہ سرابوں کا
بڑھا جو آگے سمندر ملا بہت گہرا
شدید پیاس کے عالم میں ڈوبنے سے بچا
قدح تو کیا مجھے قطرہ لگا بہت گہرا
تو اس کی زد میں جو آیا تو ڈوب جائے گا
بہ قدر آب ہے ہر آئنہ بہت گہرا
ملیں گے راہ میں تجھ کو چراغ جلتے ہوئے
کہیں کہیں ہے مرا نقش پا بہت گہرا
تلاش معنی مقصود اتنی سہل نہ تھی
میں لفظ لفظ اترتا گیا بہت گہرا
جو بات جان سخن تھی وہی رہی اوجھل
لیا تو اس نے مرا جائزہ بہت گہرا
قدیم ہوتے ہوئے مجھ سے بھی جدید ہے وہ
اثر ہے اس پہ مرے دور کا بہت گہرا
فضاؔ ہمیں تو ہے کافی یہی خمار وجود
ہے بے شراب بھی حاصل نشہ بہت گہرا
غزل
کھلا نہ مجھ سے طبیعت کا تھا بہت گہرا
فضا ابن فیضی