کھلا مجھ پر در امکان رکھنا
مرے مولا مجھے حیران رکھنا
یہی اک مرحلہ منزل نہ ٹھہرے
یہی اک مرحلہ آسان رکھنا
مرے دل کا ورق نکلے نہ سادہ
کوئی خواہش کوئی ارمان رکھنا
یہ دل طاق چراغ زر نہ ٹھہرے
مرے مالک مجھے نادان رکھنا
مرے حالات مجھ کو چھو نہ پائیں
مجھے ہر حال میں انسان رکھنا
بھری رکھنا مرے مولا یہ آنکھیں
دکھوں کی بارشوں کا مان رکھنا
مرے ساتھی بھی مجھ سے بے نوا ہیں
بساطیں دیکھ کر تاوان رکھنا
یہ دن کیوں کر چڑھا وہ شب ڈھلی کیوں
مجھے آیا نہ اتنا دھیان رکھنا
مجھے بھی عام یا گمنام کر دے
کہ اک آزار ہے پہچان رکھنا
اسیر عمر کو آیا نہ اب تک
کتاب ہجر کا عنوان رکھنا
ہوا کی طرح صحرا سے گزر جا
سفر میں کیا سر و سامان رکھنا
غزل
کھلا مجھ پر در امکان رکھنا
خالد احمد