EN हिंदी
کھل کے باتیں کریں سنائیں سب | شیح شیری
khul ke baaten karen sunaen sab

غزل

کھل کے باتیں کریں سنائیں سب

سلمان اختر

;

کھل کے باتیں کریں سنائیں سب
کوئی تو ہو جسے بتائیں سب

رات پھر کشمکش میں گزری ہے
تھوڑا بتلا دیں یا چھپائیں سب

کچھ تو اپنے لئے بھی رکھنا ہے
زخم اوروں کو کیوں دکھائیں سب

لے چلوں آؤ تم کو منزل تک
مجھ سے کہتی ہیں یہ دشائیں سب

کام لوگوں کے دل کو بھا جائے
دل اگر کام میں لگائیں سب