کھل گیا عقدۂ ہستی تو کفن مانگ لیا
زیست نے موت سے جینے کا چلن مانگ لیا
پھوٹ کر سینۂ کہسار سے بہنے کے لیے
چشمۂ آب نے دامان دمن مانگ لیا
کیا تعجب ہے اگر مانگ لی چہرے سے نقاب
دور حاضر نے تو پیراہن تن مانگ لیا
بن گیا حلقۂ ظلمت جو پڑا عکس زمیں
چاند نے خود تو نہیں بڑھ کے گہن مانگ لیا
جس کی آغوش میں ماضی کی امانت تھی نہاں
اس نے مانگا تو وہی قصر کہن مانگ لیا
جلنے والوں نے بھی شہناز غزل سے کوثرؔ
حسن فن مانگ لیا رنگ سخن مانگ لیا
غزل
کھل گیا عقدۂ ہستی تو کفن مانگ لیا
کوثر سیوانی