کھل گیا شاید بھرم اے دل جنوں کے راز کا
بدلا بدلا سا نظر آتا ہے رخ دم ساز کا
گونجتی ہے اب بھی کانوں میں صدائے بازگشت
ٹوٹنا دل کا تھا اک نغمہ شکستہ ساز کا
ماہ و انجم میں بھی اس کا حسن جلوہ ریز ہے
آفتاب اک عکس ہے حسن کرشمہ ساز کا
اک پری خانہ ہے یہ شہر حسیں لیکن یہاں
کوئی چہرہ بھی نظر آیا نہ اس انداز کا
کس قدر رنگیں ہے ترتیب کتاب زندگی
اس میں افسانہ ہے شاید تیرے حسن و ناز کا
شوخیاں پھولوں سے جب کرنے لگی باد سحر
بارہا دھوکہ ہوا ہے آپ کی آواز کا
اپنا حرف آرزو بھی کیا قیامت ہے نظیرؔ
داستاں در داستاں ہے حرف حرف اس راز کا
غزل
کھل گیا شاید بھرم اے دل جنوں کے راز کا
نظیر رامپوری