EN हिंदी
کھل گئی کھڑکی اچانک پھر بھی مجھ کو ڈر نہ تھا | شیح شیری
khul gai khiDki achanak phir bhi mujhko Dar na tha

غزل

کھل گئی کھڑکی اچانک پھر بھی مجھ کو ڈر نہ تھا

پریمی رومانی

;

کھل گئی کھڑکی اچانک پھر بھی مجھ کو ڈر نہ تھا
اب مری آنکھوں میں کوئی رات کا منظر نہ تھا

بہہ رہا تھا چار سو اک ریت کا دریا مگر
جس جگہ پر میں کھڑا تھا راستہ بنجر نہ تھا

شہر کے سارے مکاں لگنے لگے ہیں ایک سے
جس مکاں میں بھی گیا دیکھا میرا وہ گھر نہ تھا

یاد جب کرنے لگا تب رنگ موسم بھی کھلا
لوگ کہتے تھے کہ طغیانی بھرا ساگر نہ تھا

راستے پریمیؔ سبھی کیوں کھو گئے گم ہو گئے
اس سے پہلے اتنی گہری دھند کا منظر نہ تھا