خوددارئ حیات کو رسوا نہیں کیا
ہم نے کبھی ضمیر کا سودا نہیں کیا
جاں سے عزیز تھا ہمیں دستار کا وقار
ظالم کو سر تو دے دیا سجدہ نہیں کیا
پھر لب پہ تیرے کلمۂ افسوس کس لیے
میں نے تو تیرے جبر کا شکوہ نہیں کیا
منڈلا رہا ہے آج جو ساحل کے ارد گرد
طوفان کو تو تم نے اشارہ نہیں کیا
اس کے رخ جمیل کے آئے جو روبرو
مہتاب ایسا چرخ نے پیدا نہیں کیا
گرچہ مرے قلم کے خریدار کم نہ تھے
میرے ضمیر ہی نے گوارا نہیں کیا

غزل
خوددارئ حیات کو رسوا نہیں کیا
رام اوتار گپتا مضظر