EN हिंदी
خدا کو بھولے نہ جب تک ہمیں خدا نہ ملا | شیح شیری
KHuda ko bhule na jab tak hamein KHuda na mila

غزل

خدا کو بھولے نہ جب تک ہمیں خدا نہ ملا

قیصر امراوتوی

;

خدا کو بھولے نہ جب تک ہمیں خدا نہ ملا
یہ مدعا بھی بجز ترک مدعا نہ ملا

قدم قدم پہ نہ کیوں سجدہ ریزیاں کر لوں
حضور حسن یہ موقع ملا ملا نہ ملا

کلیم طور یہ کیوں طور پر گری بجلی
نگاہ ناز کو کیا کوئی با وفا نہ ملا

اڑا کے لے گئی پرواز شوق منزل تک
عدم کی راہ میں کوئی شکستہ پا نہ ملا

قفس میں آئے اجل یا مریں نشیمن میں
دو روزہ زیست کا ہم کو کہیں مزا نہ ملا

جنون شوق کی خودداریاں معاذ اللہ
مزاج داں کوئی قیصرؔ کو رہنما نہ ملا