خدا کی ذات نے جب درد کا نزول کیا
مرے سوا نہ کسی اور نے قبول کیا
اگرچہ ایک قبیلے کے فرد ہیں دونوں
تجھے گلاب بنایا مجھے ببول کیا
کبھی یہ غم کہ ادھورا رہا ہمارا کام
کبھی یہ سوچ کہ جتنا کیا فضول کیا
ہوا نے گرد اڑائی ہے بارہا میری
پلٹ پلٹ کے زمیں نے مجھے قبول کیا
ہر ایک زخم کو بخشی گلاب کی صورت
بدن کی سیج پہ کانٹوں کو ہم نے پھول کیا
سنا رہے ہیں شجر رخصت بہار کا سوگ
ثمر تو کیا کوئی پتہ نہیں قبول کیا
کسی کو خد سے زیادہ نہ محتسب جانا
فقط ضمیر کی آواز کو اصول کیا
غزل
خدا کی ذات نے جب درد کا نزول کیا
مختار جاوید