خدا کی شان وہ خود ہو رہے ہیں دیوانے
جو راہ دشت سے آئے تھے ہم کو پلٹانے
نکل چلے تو ہیں ترغیب دل پہ ہم گھر سے
کہاں لگیں گے ٹھکانے یہ اب خدا جانے
نہ دل رہا نہ رہی دل کی خاک بھی باقی
حضور آئے ہیں اب انتظار فرمانے
جو دل کی آگ سے واقف بنیں وہ کیا جانے
لپٹ کے شمع سے کیوں جل رہے ہیں پروانے
نگاہ جن کو ملی ہے وہ لطف لیتے ہیں
چھلک رہے ہیں پڑے کیفیت سے ویرانے
نہیں ہے سینے میں پیوست جس کے تیر نگاہ
وہ راہ و رسم حیات و ممات کیا جانے
چلے تو ہیں کہ دکھائیں گے ان کو چیر کے دل
پہنچ سکیں گے ہم ان تک یہ اب خدا جانے
گھٹے تو چین نہیں ہے بڑھے تو چین نہیں
ہمیں لگا ہے یہ کیا روگ کوئی پہچانے
ہے سر پہ بوجھ تو کیا ہے مگر بڑھے نکلو
نہ اٹھ سکو گے جو بیٹھے ذرا بھی سستانے
تمام عمر ہوئی ایک ہی روش پہ جگرؔ
ہزار بار ہمیں آزمایا دنیا نے
غزل
خدا کی شان وہ خود ہو رہے ہیں دیوانے
جگر بریلوی