خدا کرے تو کسی راز کا امیں نہ بنے
گماں گماں ہی رہے اور کبھی یقیں نہ بنے
تجھے یہ شوق کہ پرواز ہو بلند اپنی
مجھے یہ ڈر کہ کبھی آسماں زمیں نہ بنے
یہ بات اور ہے کوشش ہزار کی ہم نے
ہمارے شعر تمہاری طرح حسیں نہ بنے
یہ المیہ ہے ہمارا کہ ہم بہ ہر صورت
تماشا گاہ رہے اور تماش بیں نہ بنے
عجب وہ غربت دیوار و بام و در تھی کہ ہم
مکان میں رہے لیکن کبھی مکیں نہ بنے
اٹھاؤ ہاتھ دعا کو تو احتیاط رہے
یہ ہاتھ اٹھ کے کبھی ننگ آستیں نہ بنے
غزل
خدا کرے تو کسی راز کا امیں نہ بنے
موسیٰ رضا