EN हिंदी
خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا | شیح شیری
KHuda jab tak na chahe aadmi se kuchh nahin hota

غزل

خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا

مخمور دہلوی

;

خدا جب تک نہ چاہے آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
مجھے معلوم ہے میری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا

محبت جذبۂ ایثار سے پروان چڑھتی ہے
خلوص دل نہ ہو تو دوستی سے کچھ نہیں ہوتا

وہاں تیرا کرم تیرا بھروسہ کام آتا ہے
جہاں مجبور ہو کر آدمی سے کچھ نہیں ہوتا

ضیائے شمس بھی موجود ہے نور قمر بھی ہے
بصیرت ہی نہ ہو تو روشنی سے کچھ نہیں ہوتا

غرض تیرے سوا ہر ایک کو مجبور پاتا ہوں
بھروسہ جس پہ کرتا ہوں اسی سے کچھ نہیں ہوتا

خود اپنے حال سے الجھے ہوئے ہیں تیرے دیوانے
ہنسے جائے زمانے کی ہنسی سے کچھ نہیں ہوتا

محبت بد گماں ہو جائے تو زندہ نہیں رہتی
اثر دل پر تمہاری بے رخی سے کچھ نہیں ہوتا